چھ ستمبرانیس سو پینسٹھ کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب اس وقت کے صدرایوب خان نے بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی شیطانی بڑھک کو ولولہ خیزانداز میں للکارا تو پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اور بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کے خواب کو چکنا چورکردیا جس میں اس نے یہ بڑھک لگائی تھی کہ وہ 6 ستمبر کی شام کو جم خانہ کلب لاہور میں اپنی فتح کا جام پی کر لاہور پر بھارتی قبضے کا جشن منائے گا۔
پاکستانی قوم کا 1965ء کا جذبہ ایک تاریخ سازواقعہ ہے جس نے 1940ء کا تاریخی جذبہ زندہ کرتے ہوئے اس قوم کو پوری دنیا کے سامنے سرخروکیا تھا۔ یہ ایک خوشگوارحقیقت ہے کہ افوج پاکستان نے رب العزت کی کمال مہربانی سے قوم اورملک کی لاج رکھتے ہوئے بھارتی افواج کو جنگ کے پہلے دن 6 ستمبر سے لیکر23 ستمبر تک پورے 17 دن جب بھارتی درخواست پرر وس کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی تو پاکستانی بہادرافواج اپنے سے کئی گنا زیادہ زمینی، فضائی اور بحری بھارتی قوت کوناکوں چنے چبا چکے تھے۔ روس میں تاشقند کے مقام پرجنگ بندی کا اعلان ہوتے ہی بھارتی وزیراعظم شاشتری حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پا گیا۔ آج ستمبر2016ء میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پھر1965ء کے بھارتی کمانڈرانچیف کی طرح طاقت کے مصنوعی نشے مبں بڑھکیں مار رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی شہ رگ کی سسکیوں کی گونج نےعرش خداوندی کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پورا مقبوضہ کشمیرکرفیو میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت کے یوم آزادی پرخون کی ہولی پورے کشمیر میں کھیلی گئی اور پورے مقبوضہ کشمیر نے اسے یوم سیاہ کے طور پرمنایا۔ تمام کشمیری قیادت کے جیلوں میں قید یا گھروں میں نظر بند ہونے کے باوجود نوجوانوں نے اپنے سروں پر کفن باندھ کربھارتی بربریت کیخلاف ایک ایسی روح پرور نئی تاریخ کو جنم دیا جو بھارتی سنگینوں اور حریت پسند نوجوانوں کی آنکھیں پھوڑنے والی وحشیانہ گولیوں کی بارش سے بھی نہیں رک سکی اور نہ شرمناک قسم کا یہ تشدد مستقبل میں مزید بھارتی افواج کی کمک کے باوجود رکے گا۔ اسکے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی کے لال قلعہ سے پاکستان کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی کہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے بلکہ پاکستان کے قبضہ میں آزاد کشمیر اور گلگت سکردو کے علاقہ جات بھی بھارت کا آئینی حصہ ہیں۔ کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ پاکستان کی حکومت اورفوجی قیادت پرلازم ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کے اندر اور دنیا کے ہرکونے میں جہاں بھی پاکستانی آباد ہیں وہ 6 ستمبر1965ء کے ساتھ ساتھ 16 دسمبر1971ء اور اسکے بعد بین الاقوامی اورعلاقائی سطح پرتاریخ کی روشنی میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پرغورکریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجزکا پورا ادراک کئے بغیر وہ جذبہ ایمان، اتحاد اور تنظیم وجود میں نہیں آ سکتا جس کی ضرورت آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔ سب سے پہلے ہرفرد کا یہ احساس اشد ضروری ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور6 ستمبر2016ء کا دن اس عزم کی تجدید کا دن ہے کہ دشمن کو بار بار ذہن نشین کرایا جانا نہائیت ضروری ہے کہ پاکستان کمزور نہیں۔ پاکستان کو طرح طرح کی دھمکیوں سے ڈرانا اور خوف میں مبتلا کرنا کہ اسے گھیرے میں لیکر تنہاء کردیا جائیگا جس سے اسکے وجود اور آزادی کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے تاثرات کو جڑ سے اکھاڑ دینے کیلئے ذاتی مفادات پر ملک و قوم کے مفادات اور دشمن کےعزائم کو ناکام بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔