تارکین وطن کی خبریں
پاکستانی نژاد بزرگ اخبار فروش کو فرانس کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا جائے گا ۔

پیرس: فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون رواں سال ستمبر میں 73 سالہ علی اکبر کو نیشنل آرڈر آف میرٹ کا نائٹ مقرر کریں گے ۔

پیرس کے فیشن ایبل لاطینی کوارٹر میں گزشتہ 50 برس سے زائد عرصے سےکیفے اور ریسٹورنٹس کے باہر اخبارات فروخت کرنے والے 73 سالہ پاکستانی بزرگ کو فرانس کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا جائے گا۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون رواں سال ستمبر میں انہیں نیشنل آرڈر آف میرٹ کا نائٹ مقرر کریں گے، جو کہ فرانس میں سول یا فوجی شعبے میں نمایاں خدمات پر دیا جاتا ہے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے علی اکبر 1973 میں فرانس منتقل ہوئے اور جلد ہی انہوں نے پیرس کی سڑکوں پر مزاحیہ ہفت روزہ چارلی ہیبڈو کے نسخے ساربون یونیورسٹی اور دیگر قریبی اداروں کے طلبہ کو فروخت کرنا شروع کیے۔

1970 کی دہائی میں جب ٹیلی ویژن پر خبروں کی رسائی نے اخبار فروشی کے پیشے کو تقریباً ختم کر دیا تھا، علی اکبر نے نہ صرف اس روایت کو زندہ رکھا بلکہ اپنی خوش مزاجی، مزاحیہ انداز اور مستقل مزاجی سے اسے ایک پہچان میں بدل دیا، آج وہ پیرس کے آخری زندہ دل اخبار فروش کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو آج بھی روزانہ سڑکوں پر اخبارات بیچتے ہیں۔

علی اکبر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مجھے کاغذ کی خوشبو پسند ہے، مجھے ٹیبلٹ اور اس قسم کی چیزیں پسند نہیں، میں پڑھنا پسند کرتا ہوں، چاہے کچھ بھی ہو، لیکن صرف اصل کتابیں، اسکرین پر نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا اخبار بیچنے کا ایک خاص انداز ہے، میں لطیفے سناتا ہوں، لوگ ہنستے ہیں، میں مثبت رہنے کی کوشش کرتا ہوں، ایک ماحول بناتا ہوں، میں لوگوں کی جیبوں تک نہیں، ان کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاہم ڈیجیٹل اشاعت کے اس دور میں ان کا کام دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ 8 گھنٹوں میں لےمونڈ کی بمشکل 20 کاپیاں کی بیچتا ہوں، سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا ہے، لوگ اب اخبار نہیں خریدتے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک صحت اجازت دے گی، وہ اخبار فروخت کرتے رہیں گے۔ پیرس کے لاطینی کوارٹر، جہاں اب زیادہ تر مہنگے فیشن اسٹورز اور ریسٹورنٹس موجود ہیں، وہاں کے مقامی لوگ کہتے ہیں کہ علی اکبر جیسے لوگ اس علاقے کو اصل پیرس بنائے رکھتے ہیں۔

ایک باقاعدہ گاہک ماری- لور کاریئر کہتی ہیں کہ علی ایک ادارہ ہیں، میں روزانہ ان سے لےمونڈ خریدتی ہوں، بلکہ صرف اخبار ہی نہیں خریدتے، ہم ان کے ساتھ کافی پیتے ہیں، کبھی کبھی دوپہر کا کھانا بھی کھاتے ہیں۔


واپس جائیں