میرےعلم میں ایسا کوئی پاکستانی نہیں جسے پاک چین دوستی کے حوالے سے یہ نعرے یاد نہ ہوں، 'چین ہمارا یارہے، اس پرجاں نثارہے' اور'پاک چین دوستی، ہمالیہ سے بھی بلند ہے'۔ یہ کوئی فرضی نعرے نہیں بلکہ عملی پیغام ہیں، کسے نہیں معلوم کہ چین نے پاکستان میں صرف ترقیاتی عمل ہی کے لئے کھربوں روپے کے منصوبے شروع نہیں کئے بلکہ عملی طور پر بھی گہری دوستی کا ثبوت دیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکا یاد آنا بھی قدرتی بات ہے۔ جنکی آج 4 اپریل کو37 ویں برسی منائی گئی۔ افسوس اورصد افسوس کہ اس پاک چین دوستی کےمعماراورایٹمی پروگرام شروع کرنے والے پاکستان کےعظیم لیڈراورسابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکو ایک لاوارث کی طرح 3/4 اپریل 1979ء رات کی تارکی میں ایک مقامی امام کی قیادت میں دو ڈھائی درجن افراد نے نماز جنازہ پڑھی اوردفن کر دیا۔ آج اسی کچی قبرپر بنے مقبرہ میں ان سے محبت و عقیدت رکھنے والوں نے قرآن خوانی کے بعد دعائے مغفرت کی اورگڑھی خدا بخش میں پورے ملک سے آنے والے ان کے پرستاروں نے خراج عقیدت پیش کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفوں کی تعداد بھی کم نہیں لیکن تاریخ میں ان کے مثبت اور ملک کے لئے بہتر کردار کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا، ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کئی حوالوں سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی بنیاد انہوں نے رکھی اور پھر اسے فروغ دیا اور مضبوط بھی کیا جبکہ ایٹمی پروگرام بھی انہی کے دور میں شروع ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی انہی کے دور میں مراعات دی گئیں اور پھر درجہ بدرجہ یہ پروگرام آگے بڑھا اور آج پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسی جرم کی بنیاد پر ان کو تختہ دار تک جانا پڑا اور ان کی تدفین بھی لاوارث میت کی طرح ہوئی۔ ان کی اہلیہ اور صاحبزادی کو بھی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور بالآخر بے نظیر بھٹو خود بھی شہید ہوئیں، بے شک یہ تدفین رات کی تاریکی میں کردی گئی لیکن آج کے گڑھی خدا بخش کے اجتماع نے یہ ثابت کردیا 'ہرچہ خدمت کرو، او مخدوم شد' والی مثال ان پرثابت ہوتی ہے اور وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے بات ہو تو ان کی تحریروں، تقریروں اور انٹرویوزسے بھی استفادہ کرنا چاہیے جوآج کل کے حالات کی نشاندہی بھی کرتے رہے ہیں، ان کی ملکی خدمات میں ٹوٹے ہوئے پاکستان کو پھر سے سنبھالنا، اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد، نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی بھی شامل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ لیکن 1977ء میں ان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب اورتحفظات پیدا ہو گئے۔ 19اپریل 1977ء کو گورنر ہاؤس لاہور کے دربار ہال میں ہونے والی پرہجوم پریس کانفرنس میں جب بی بی سی کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ (بھٹو) کے گرد فوجیوں کا گھیرا ہے تو وہ برہم ہو گئے تھے اور انہوں نے کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مار کر کہاکوئی جرات نہیں کر سکتا، یہ کرسی بڑی مضبوط ہے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور 4-5 جولائی 1977ء کی شب یہ مضبوطی کام نہ آئی۔ یہ سب ایسی منصوبہ بندی سے ہوا کہ پیپلزپارٹی کوئی بہت بڑا احتجاج بھی نہ کر سکی۔ شیدائیوں نے خود سوزی بھی کی۔ جیلیں اور کوڑے بھی مقدر بنے، بعد میں تحریک بھی چلی لیکن اتنا بڑا اور موثر دباؤ نہ بنا جس سے ان کی رہائی عمل میں آ جاتی اور پھر ضیاء الحق نے کسی عالمی رہنما کی بات بھی نہ مانی۔ آج گڑھی خدا بخش میں بہت بڑا اجتماع ہوا اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ذوالفقار علی بھٹوکے لیئے قرآن خوانی اور تقریبات ہوئیں مگران کی پارٹی آج جس حالت میں ہے اسے سیاسی طاقت اور عوامی طاقت (حمائت) کےانجیکشنوں کی ضرورت ہے۔ اس بحث میں جائے بغیر کہ کون کیا ہے۔ کس نے کیا کیا اور کون کیا کر رہا ہے۔ میری سمجھ سے بالا ترہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت 'بلاول بھٹوکی قیادت' سے یہ توقع رکھی جا سکےکہ وہ پھر سے پارٹی کو 70 والی پوزیشن پر بحال کر سکے گی؟۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی مختلف الخیال حضرات پر مشتمل پارٹی ہے لیکن اس کا تشخص توایک عوامی پارٹی اوراس کے بنیادی اصول ہی ہیں جب تک یہ تشخص بحال نہیں ہوتا اس پارٹی کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں گی۔