مضامین
میرے الفاظ سلگتے ہیں : شاذیہ عبدالقادر

عنوان ایسا ہے کہ اس پر لکھنے کے لئے اپنا قد بہت چھوٹا محسوس ہوتا ہے اور اس کو لکھنے کو حوصلہ کرنا پڑتا ہے، اس کے لکھنے کے دوران آنسوؤں پر قابو نہیں رہتا۔ لیکن یہ ایک فرض ہے اور میری نسل پر قرض بھی ہے جو ہمیں ادا کرنا ہے۔ یہ گھاؤ بہت گہرا ہے ایسا کہ ہرسال دسمبر میں سلگنے لگتا ہے۔ پھر ہم اسے سارا سال سلگائے رکھتے ہیں۔

ہمارے گھر کے فوٹو البم میں والد مرحوم کے ساتھ ایک صاحب کی اور ان صاحب کی گود میں بیٹھے ایک بچہ کی تصویر تھی۔ والدہ بتایا کرتی تھیں کہ یہ آپکے ابو جی کے ایک دوست بنگالی تھے ان کا نام سورج تھا۔ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کے ہمراہ آئے تو امی جی کو والد صاحب نے مچھلی لاکر دی۔ پکانے کا طریقہ بتایا. ابلے چاول مچھلی کے ساتھ دعوت کا کھانا بنا۔ لیکن میری والدہ کشمیری اور مہمان خاتون بنگالی تو دونوں بس ایک دوسرے کو ہنس کر مسکرا کر خاموش محبت بھری گفتگو کرتی رہیں۔ والدہ نے بتایا کہ ہم مچھلی کے کانٹے نکالتے رہ گئے اور وہ مہمان خاتون چٹ پٹ مچھلی کھا کر فارغ۔ اور 1971 کی جنگ سے پہلے وہ جوڑا واپس گیا اور پھر کبھی والد صاحب کا اپنے دوست سے رابطہ نہ ہوا۔ زندہ رہے مارے گئے کہاں گئے نہیں معلوم ۔

یہ میرا مشرقی پاکستان، بنگال سے پہلا تعارف تھا ۔

سولہ دسمبر 1971 اس دن کے بارے پہلی بارمکمل معلومات 1994 میں اسلامی جمعیت طالبات زون 4 کا پروگرام ،جس میں غزالہ ہاشمی باجی کے لیکچر سے ملیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس دن بہت روئی تھی مجھے اس دن معلوم ہوا تھا کہ صرف ابو جی کے عزیز بنگالی دوست اپنی فیملی ساتھ ہی لاپتہ نہیں ہوئے تھے بلکہ اس دن تو ہم نے پاکستان کا ایک بازو کھو دیا تھا۔

پھر سلیم منصور خالد صاحب کی البدر پڑھ ڈالی۔ کہیں سالک صاحب کی "میں نےڈھاکا ڈوبتے دیکھا" ملی تو وہ پڑھی۔ کچھ سال پہلے وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی سید سجاد حسین شاہ صاحب کی "شکست آرزو" اور گزشتہ سال سید ابوالحسن صاحب کی "سقوط ڈھاکہ کی حقیقت" بھی روتے ہوئے پڑھی۔ کبھی زچ ہوئی کبھی غصہ آیا۔ کبھی اٹھا کر کتاب رکھ دی ۔ تین چار سال قبل بھائی عبدالغفار عزیز صاحب کا لیکچر ریکارڈ ہوا ویڈیو بنی۔ سید شاہد ہاشمی، سلیم منصور خالد صاحب کے مشرقی پاکستان کی تاریخ بیان کرتے پرمغز لیکچرز۔

اس عنوان پر ہر کتاب، ہر مضمون پڑھتے، ہر لیکچر سنتے خدا شاہد ہے کہ دل تڑپنے لگتا ہے، آنسوؤں پر اختیار نہیں رہتا بے بسی سی بے بسی ہے۔

پھر مجھے اسلامی جمعیت طالبات کی رکن شاہدہ نسرین یاد آتی ہیں جن کی فیملی بنگال سے تھی. رکن جماعت شیریں مظہر یاد آتی ہیں جن کی بنگالی لہجے میں اردو بولتی محبتوں سے لبریز آواز سننے کو ملی۔ پھر نائلہ نصیر باجی کی زبانی انکے شوہر کی داستان الم۔ تو لگتا ہے کندھوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ وہ محبتیں کہ جنہیں جدا کردیا گیا وہ رشتے کہ جنہیں توڑ دیا گیا۔

کیسا المیہ ہے، قیام پاکستان سے قبل اردو تحریک اٹھتی ہے تو بنگال سے، تحریک قیام پاکستان عوامی شکل تب اختیار کرتی ہے جب شیر بنگال اے کے فضل حق اس میں شامل ہوتے ہیں۔

مشرقی پاکستان کی 54 فیصد اور مغربی پاکستان کی 46 فیصد آبادی ۔ ایک ہزار میل کی دوری، لیکن ایک نظریہ ایک جدوجہد پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔

وہ بنگال کہ جہاں چٹاکانگ کے شہزادے تری دیورائے قائد اعظم سے فقط ایک ملاقات میں ہمیشہ کی وفاداری ایسے نبھاتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت وہ پاکستان کو بچانے بیرون ملک دورے پر ہوتے ہیں اور پاکستان دولخت کردئیے جانے پر پھر کبھی اپنی سلطنت کو واپس نہیں جاتے۔اسلام آباد میں ہی تادم مرگ رہے۔

وہ بنگالی نوجوان جو پاک فوج کی ایک پکار پر لبیک کہتے ہیں بےدردی سے مارے جاتے ہیں، جنگی قیدی بنائے جاتے ہیں جو کسی طرح بچ گئے تو سالوں بعد آج بھی وہاں انتقام کی آگ میں جھونکے جارہے ہیں۔

کس جرم میں کہ انہوں نے 1971 میں "پاکستان" کا ساتھ کیوں دیا۔؟؟؟ 1971 میں تو بنگال بھی پاکستان تھا۔

ظالمو! انہوں نے اپنے ملک کو بھارتی دراندازی سے بچایا اس وقت تو تم پاکستان ہی تھے ۔ تو پھر یہ مقدمے ۔ یہ پھانسیاں ۔یہ قید و بند کی صعوبتیں کیسی۔ اسّی اسّی سال کے بزرگ جیلوں میں مارے جاتے ہیں۔

دنیا میں بہت سے ملک الگ ہوئے۔ کسی کا نام شمالی کوریا، جنوبی کوریا، کوئی مشرقی جرمنی مغربی جرمنی کہلایا۔ لیکن بنگال الگ کیا گیا تو بھارت فوراً ہی اقوام متحدہ میں بنگال کے وفد کو لے کر پہنچتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش رکھا جائے۔

آخر کو الگ ہوکر بھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان رہ سکتے تھے لیکن نظریہ پاکستان کے دشمنوں کو یہ نام بھی گوارا نہ تھا۔

شاہد ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ "مشرقی پاکستان ٹوٹا نہیں توڑا گیا۔ بنگلہ دیش آزاد نہیں ہوا الگ کیا گیا" اگرچہ ان مختصر جملوں میں طویل دستان الم ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان بنگلہ دیش ٹیسٹ سیریز میں میرے مشرقی پاکستان کے اسٹیڈیم میں جو مغربی پاکستان سے محبت کے وارفتگی اور محبت بھرے مناظر نظر آئے انہوں نے بتایا کہ دشمن ہمیں دور کر کے بھی، الگ کر کے بھی ہمیں دور اور الگ نہیں کرسکا۔ واحد ٹیسٹ سیریز تھی کہ جس میں جو ملک بھی جیتتا تو یکساں خوشی ہوتی تھی۔

نظریہ پاکستان کو توڑنے کے اس دکھ ،غم، شرمندگی اور تاسف کو مٹانے کے لئے اگرچہ بہت سی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ہمارے بڑوں کی مہربانی سے تاریخ ہم تک بالکل درست پہنچی ہے اور ہم ان شاءالله اگلی نسلوں تک بھی اسے درست پہنچائیں گے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کو الگ کرنے میں عالمی قوتیں، بھارتی دراندازی کے ساتھ اپنوں کے جذباتی فیصلے، اناؤں کے مینار، اندھی عقیدت، تعصب اور ذاتی مفادات تو تھے ہی۔ لیکن، جس چیز نے زہرقاتل کا کام کیا وہ "تعصبات" تھے جس نے نظریہ پاکستان کے خلاف بیرونی سازشیں کامیابی کی منزل تک پہنچائیں۔

پاکستان کلمہ لاالہ الا اللہ کے نعرے پر قائم ہوا ۔ مورخین اور دانشور کہتے ہیں کہ یہ نعرہ نہ لگتا تو شاید پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔

دوقومی نظریہ کی بنیاد یہی نعرہ تھا۔ نظریہ قوموں کی جان ہوتا ہے جس قوم سے نظریہ نکال دیا جائے وہ قوم، قوم نہیں رہتی۔

نظریہ پاکستان کے دشمن تو مسلسل گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا ہوگا؟؟؟

ہمیں ہر قسم کے تعصبات، مسلکی، سیاسی، لسانی، صوبائی کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا ہوگا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ "کوئی سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان نہیں ہے" ہم سب مسلمان ۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔

یہاں چوہتر سال سے قابض شکلیں بدل بدل کر اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے سیاسی پارٹیاں بنا کر اپنے اپنے صوبے آپس میں تقسیم کرتی ہیں ۔

چوہتر سال سے لے کر آج بھی مملکت خداداد کے دشمن تعصبات کو ہوا دیتے ہیں۔ کشمیر جسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا، مقبوضہ کشمیر کے نام سے ہی پکار رہے ہیں۔ آزادکشمیر کی طویل سرحد پر بھارت آئے روز دراندازی کرتا رہتا ہے، سرحدی آبادی کے املاک، مویشی، جان سب کو نقصان پہنچتا ہے۔

کہیں امریکی طیارے اور ڈرون آکر پاکستان میں آپریشن اور حملے کرتے نظر آئے ہیں۔

بلوچستان میں فسادات میں بھارتی ہاتھ ملوث رہتا ہے تو گوادر پر ایک مہینہ سے مولانا ہدایت الرحمان پرامن احتجاج کرکے حقوق مانگ رہے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ عوام آنکھیں کھولے، ایسے سیاستدانوں کا بائیکاٹ کریں جو ذاتی مفادات، انا پرستی کا شکار ہوں۔ صرف ایسے لوگوں کو ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار لائیں کہ جو ایمان دار اور دیانت دار ہوں، نظریہ پاکستان سے سچی محبت کرنے والے ہوں، حقوق کی عادلانہ تقسیم کرنے کی ہمت رکھتے ہوں، عالمی اداروں کے غلام نہ بنیں، ایک خود مختار ملک بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں، ملکی وقار اور سلامتی پر سمجھوتہ نہ کریں۔

صرف اسی صورت ہم نظریہ پاکستان کے دشمنوں کو عبرتناک شکست دے سکتے ہیں۔


واپس جائیں