مضامین
تبدیلی کیا ہے اور کیسے آ سکتی ہے ؟ تحریر: انجینئر علی رضوان چودھری

انتہائی معذرت کے ساتھ بحیثیت قوم ہم پاکستانی ہمیشہ تبدیلی دوسروں میں دیکھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اس طرح کبھی تبدیلی نہیں آسکتی، تبدیلی ایک ہی صورت میں آسکتی ہے اور وہ یہ کہ آپ خود کو سب سے پہلے تبدیل کریں، سب سے پہلے اپنا محاسبہ خود کریں اور جب آپ اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگیں تو اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ جب آپ لوگ خود تبدیل نہیں ہوں گے، آپ کے کردار اور قول و فعل سے تبدیلی نظر نہیں آئے گی تو آپ معاشرے میں کبھی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ تبدیلی جب بھی آئی ہے اخلاق و کردار کی وجہ سے آئی ہے۔

بد اخلاقی، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے سے آپ دشمن تو پیدا کر سکتے ہیں، دوست کسی کو نہیں بناسکتے۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ سب لوگوں کو اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی، اپنوں کی تلخ بات سن کر مسکرانا ہوگا، تب کہیں جاکر دوسرے کو احساس ہوگا کہ میں نے غلطی کی ہے اور تب دوسرے کے رویّے میں تبدیلی آئے گی۔ اس عمل سے آپ ایک فرد میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئے تو اس طرح تبدیلی کا ایک سلسلہ چل نکلے گا۔ جب آپ گالی کا جواب گالی سے دیں گے اور خواہش یہ کریں گے کہ دوسرا آپ کو برداشت کرجائے تو پھر تبدیلی نہیں آئے گی، پھر تو انتشار ہی آئے گا۔

ہمارے علاقو ں میں برادری سسٹم ہے۔ آج کل ہم اپنے بھائیوں اور برادریوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا کوئی قریبی بیمار ہو یا تنگ دستی کا شکار ہو تو ہم اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے مگر جب ہماراکوئی عزیز مرجاتا ہے تو اس وقت ہم سب سے زیادہ روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو بھوک، پیاس اور تنگ دستی کی وجہ سے مرگیا ہم اس کی فوتگی پر کھانے بنانے کیلئے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کاش ہم نے اسے اس کی زندگی میں کھانا دیا ہوتا، اس کے غم میں شریک ہوئے ہوتے تو شاید وہ زندگی کے دن سکون سے گزار سکتا۔ ہمیں اب تبدیلی لانا ہوگی، اب ہمیں زندہ لوگوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اب کھانا کھلانے کیلئے کسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔

جب تک ہم زندوں کی قدر نہیں کریں گے، اس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی۔ برائے مہر بانی زندوں کی قدر کیجیے، لاشوں کو ہمدردی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دکھ، دھوکا، اذیت اور تکلیف دوسروں کو دے کر معافی اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ جس کو تکلیف دی ہے، اس سے معافی جب تک ہم نہیں مانگیں گے اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں ۔

جہاں پر ہم اہل علم، دانشور اور با ہمت قوم ہیں، انتہائی معذرت کے ساتھ، وہاں پر ہم لاپروا، خود غرض اور بے حس قوم بھی ہیں۔ ہم اصل حقیقت کو جانے بغیر اپنے پاس سے نتائج اخذ کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں برداشت کی انتہائی کمی ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہم سب کو سب سے پہلے اپنی اپنی خامیوں پر قابو پانا ہوگا، تب جاکر تبدیلی ممکن ہوسکے گی۔ اگر ہم اپنے گھر کا گند اٹھا کر دوسرے کے گھر کے سامنے پھینکتے رہیں گے تو پھر کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گلی اور محلے کی صفائی کا بھی ذمہ اٹھانا ہوگا، تب جاکر تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔

کسی غیبی مدد پر امید رکھنے کے بجائے ہمیں اپنی گلی محلے کے لوگوں کی خود مدد کرنا ہوگی۔ آپ کے گھر کے ساتھ اگر آپ کے کسی غیر پسندیدہ کا گھر ہے تو یہ اس بندے اور اللہ تعالی کا معاملہ ہے۔ اگر وہ بھوک سے مرجاتا ہے تو کل قیامت والے دن اس کا حساب آپ کو دینا ہوگا۔

اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنا ہوگی۔ ہم معاشرتی طور پر عدم برداشت کا شکار قوم ہیں۔ عدم برداشت کی یہ انتہا ہے کہ نہ ہم کسی کی ماں کی عزت کرتے ہیں اور نہ کسی کی بہن کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو عزت دینا ہوگی تب جا کر ہمیں عزت دی جائے گی۔ اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کوئی ہمیں عزت دے اور ہم کسی کی بھی عزت نہ کریں تو یقین جانیے کہ پھر خود ہمیں کبھی عزت نہیں مل پائے گی۔

تبدیلی لانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ ہم نے زندوں کو سہارا دینا ہے نہ کہ مردوں کو کندھا ۔اگر آج سے ہم عہد کر لیں کہ ہم غریب بھائی کو سہارا دیں گے بے روزگار کو روزگار دلوائیں گے ۔اگر ہم نے اپنے آپ کو تبدیل کر لیا تو حقیقی تبدیلی تب بھی آئے گی ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو آپس میں عزت و احترام اور بھائی چارے سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ثم آمین


واپس جائیں