آپ سب دوستوں کا بے حد مشکور ھوں کہ آپ نے میری تحریر کنارہ کشی کو بے حد سراہا ، یہی وجہ ھے کہ دوبارہ حالات حاضرہ پر لب کشاٸی کی ہمت کر رہا ھوں۔
آج کا عنوان آپ اوپر دیکھ چکے ھیں۔ دوستو آجکل ھم سب ایک عجیب بیماری کا شکار ھیں اور وہ بیماری ھے میں میں اور بس میں۔ کیونکہ ھم میں سے ھر ایک کو ایسا لگتا ھے کہ میرا فرقہ میری پارٹی اور میری راۓ ہی معتبر ھے۔ اور دوسروں کی رائے کو رد کرنے میں ہم اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ بعد میں اگر ہمیں پتا چل بھی جاتا ھے کہ میں غلط تھا تو بھی واپسی ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ھے کہ ہر شخص دوسروں کو بے وقوف کہ رہا ھے۔ اور اپنے آپ کو سیانا سمجھتا ھے۔ حالانکہ اگر ھم اپنی راۓ کے ساتھ کوئی ایسا جملہ لکھ دیں جس سے واپسی ممکن ھو۔ جیسے "ھو سکتا ھے کہ میں غلط ہوں مگر میرے نزدیک بات اس طرح ھے" ایسا لکھنے سے ہماری بات میں زیادہ وزن اور شخصیت میں بڑا پن آٸیگا۔ لیکن ہم نے کبھی اپنے آپ پر غور کیے بغیر سارہ دن دوسروں پر بوقوف ہونے کی مہریں لگاتے رہتے ھیں ۔ اور ہم میں سےاگر کوٸی دو جماعتیں زیادہ پڑھ جائے وہ تو کم پڑھے لکھے کو ڈنکے کی چوٹ پر جاہل کہتا ھے۔ تعلیم سے شخصیت میں نکھار ضرور آتا ہے مگر ضروری نہیں کہ زیادہ پڑھا لکھا کم پڑھے لکھے سے زیادہ با شعور ھو۔ شعورایک ایسی خداداد صلاخیت ھےجو خدا کسی کو بھی اس میں برتری دے سکتا ھے۔ سیف الملوک کا نام تو آپ نے ضرور سنا ھو گا اس کتاب کے لکھنے والے میاں محمد بخش نے کس کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن ان کی لکھی کتاب اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو پڑھاٸ جاتی ھے اور اس کتاب کی تشریح کرنے کے لۓ لوگ دنیا بھر کاسفر کرتے ہیں میاں صاحب نے لکھا۔ پڑھنے دا نا تو مان کریں تے نا آکھیں میں پڑھیا او جبار کہار کہاوے متاں روڑ سٹیں دودھ کڑھیا سو ہمیں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوے ایک دوسرے کو جگہ دینی ھو گی اور صحیح اور غلط کا فیصلہ حالات اور وقت پر چھوڑ کر سب کو گلے لگانا ہو گا۔ جب ہم دوسروں کو اپنے آپ سے زیادہ سمجھ دار سمجھنے لگ پڑیں گےتو حقیقت میں اس وقت ہم سب باشعور ہوں گےاور کوٸی بے وقوف نہیں رہے گا۔ اللہ آپ سب پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماۓ ۔ آمین