مضامین
میاں نوازشریف زیرِعتاب کیوں؟ انتقام یا قانونی گرفت؟ ایک سابق سرکاری افسر کا چونکا دینے والا تجزیہ ۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جاوید چودھری کے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ میاں نواز شریف انڈین ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، میں نے ان کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ اگر آپ نے دھماکے نہیں کیے تو قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ سارے سائنسدان پریس کانفرنس کے ذریعےعوام کو حقیقت سے آگاہ کر دیں گے کہ ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف انڈین ایٹمی دھماکوں کا جواب نہیں دینا چاہتے، ہم نے آپ کو فیل نہیں کیا بلکہ آپ کے وزیراعظم نے آپ کوفیل کردیاہے۔ ڈاکٹر قدیر کی اس دھمکی کے بعد نواز شریف کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تھا اور دھماکوں کی اجازت دے دی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے بھی ایٹمی دھماکوں کے لیے دباؤ ڈالا جس کا بدلہ نواز شریف نے دھماکوں کے فوراً بعد ان سے استعفے کی صورت میں لے لیا کشمیر کی چوٹیوں پر دونوں افواج سخت سردیوں میں نیچے اتر آتی تھیں، 84ء میں انڈین افواج بظاہر گلیشیر سے اترنے کے بعد نہایت خاموشی سے دوبارہ واپس چلی گئیں اور ان چوکیوں پر قبضہ کر لیا جو پاک فوج نے خالی کی تھیں جواباً ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد 99ء میں پاک فوج نیچے اترنے کے بعد دوبارہ واپس گئی اور انڈیا کی خالی کی گئی تمام چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے نتیجے میں سیاچن اور لداخ میں موجود انڈیا کی بہت بڑی فوج محصور ہوگئی اور ان کے لیے جانے والی اکلوتی سپلائی لائن پاکستان کے نشانے پر آگئی، بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود انڈیا چوٹیوں کا قبضہ واپس لینے میں ناکام رہا۔ اسی دوران انڈیا اقوام متحدہ اور امریکہ کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے مجبور کرتا رہا، بالاآخر 4 جولائی 1999 کو نواز شریف نے صدر کلنٹن سے ملاقات کے فوراً بعد پاک فوج کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ نواز شریف کے اس فیصلے کے بعد پاکستان نہ صرف ایک جیتی ہوئی جنگ ہار گیا بلکہ دوران پسپائی پاک فوج کو پشت پر کیے گئے حملوں میں بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اگست 1999 میں دو انڈین ائیر کرافٹس نے پاکستانی فضائی حدود میں نیوی کا مسافر جہاز مار گرایا جس میں نیوی کے 16 افیسرز شہید ہوگئے، نواز شریف نے معاملے کو یکسر نظر انداز کر دیا، اپنے وزیراعظم کی اس بے حسی نے نیوی پر بہت برا اثر ڈالا اور اس وقت کے نیوی ایڈمرل عبد العزیز مرزا نواز شریف کے خلاف ہوگئے۔ اکتوبر 1999ء میں بھارتی صدر اندر کمار گجرال نے انکشاف کیا کہ نواز شریف نے مجھے کشمیری مجاہدین کی سرگرمیوں کی خفیہ رپورٹس دیں ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے جہازکو پاکستان میں اترنے کی جازت نہیں دی اور حکم جاری کیا کہ کراچی ائیر پورٹ مذکورہ جہاز کے لیے سیل کر دیا جائے۔ جہاز کے کیپٹن نے ری فیولنگ کے لیے نواب شاہ ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت مانگی تو نواز شریف نے حکم جاری کیا کہ یہ ری فیولنگ انڈیا میں کروائی جائے۔ یوں پاکستان کے حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف کو انڈیا بھیجنے پر تیار ہوگئے 2008ء میں ممبئی حملوں کے فوراً بعد نواز شریف نے کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئےکہا کہ میں نے خود چیک کروایا ہے قصاب یہیں کا ہے، آخر ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، ہمیں اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اپریل 2010ء میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی جس نے پاکستان میں صوبائیت کو مزید بڑھاوا دیا اور مرکز کو کمزور کیا، جس کے بعد انڈیا کے لیے پاکستان میں صوبائی قوم پرستی کو ابھارنا مزید آسان ہوگیا۔ اگست 2011ء میں اپنا مشہور زمانہ بیان جاری فرمایا کہ ہماری زبان، کلچر ایک ہے، صرف سرحد کی ایک لکیر درمیان میں آ گئی، ورنہ جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں، ہم بھی اسی کو پوجتے ہیں۔ اسی بیان میں مزید فرمایا کہ واجپائی ٹھیک کہتے ہیں، ہم نے انڈیا کی پیٹھ میں چھرا مارا یہ سب جانتے ہیں، بھارت نے تو کارگل کا انکوائری کمشن بنا دیا لیکن یہاں کیا کہیں کہ کون آج تک کارگل کی انکوائری نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخاب میں عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باؤجود نواز شریف حیران کن طور پر بھاری مارجن سے جیت گیا، معید پیرزادہ مشہور اینکر نے دعوی کیا کہ نواز شریف کو جتوانے کے پیچھے انڈیا اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہے اور آنے والے دنوں میں نواز شریف انڈیا اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات پورے کرے گا۔ مئی 2014ء میں نواز شریف گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان دشمنی کے نعرے پر ووٹ لینے والے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کے لیے خصوصی طور پر دہلی پہنچ گئے۔ نریندر مودی نے حلف اٹھاتے ہی سارے کام چھوڑ کر پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں نہایت جارحانہ سفارت کاری شروع کردی۔ جواباً نواز شریف نے پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر نہ کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا، یوں نریندر مودی کے لیے میدان بلکل خالی چھوڑ دیا۔ البتہ جاتے جاتے خواجہ آصف کو وزیرخارجہ مقرر کیا جس نے واحد کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ امریکہ جاکر بیان داغ دیا کہ حافظ سعید پاکستان سے باہر دہشت گردی کرتا رہا ہے اور ہمیں اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے اپنے دورہ انڈیا کے دوران کشمیری حریت لیڈروں سےملنے سے انکار کر دیا حالانکہ پاکستانی سربراہان انڈیا دورے میں یہ ملاقاتیں ضرور کرتے ہیں، کشمیر کمیٹی کا چیرمین مولانا فضل الرحمن کو مقرر کر دیا جو 2002ء میں مسئلہ کشمیر کو علاقائی تنازع قرار دے چکے تھے اور کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے چکے تھے۔ نواز شریف کی آمد کے بعد انڈین فوج کا کشمیریوں پر ظلم کئی گنا بڑھ گیا اور کشمیریوں کو جانوروں کا شکار کرنے والی پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جانے لگا، جواباً کشمیریوں کی تحریک آزادی بھی عروج پر پہنچ گئی۔ لیکن نواز شریف نے سوائے اقوام متحدہ میں ایک رسمی بیان جاری کرنے کے کشمیر کے لیے سفارتی محاذ پر ایک لفظ تک نہیں بولا تھا۔ 2014ء میں راحیل شریف نے نواز شریف کو ایک آڈیو سنائی جس میں ایک انڈین جنرل ٹی ٹی پی کے امیر فضل اللہ کو ہدایات دے رہا تھا، یہی آڈیو امریکن سفیر کو بھی سنائی گئی تھی۔ بلوچ فراریوں نے ہتھیار ڈال کر اعتراف کیا کہ انڈیا ان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے سپورٹ کر رہا ہے۔ اسی طرح فاٹا اور کراچی میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں نے بھی یہی بیانات دئیے۔ نواز شریف کو پاک فوج نے تمام شواہد پر مبنی ایک ڈوزئیر بنا کر دیا تاکہ انڈیا کے خلاف اقوام متحدہ میں اپنا کیس جمع کروا سکیں، لیکن نواز شریف اپنے وعدے سے مکر گئے اور وہ ڈوزئیر جمع نہیں کروایا جا سکا تھا۔ جون 2014ء میں مودی کی والدہ کے لیے ساڑھی اور آموں کا تحفہ بھیجا، جنوری 2015ء میں انڈین قومی سلامتی کے مشیر اور نریندر مودی کے بعد انڈیا کی سب سے طاقتور شخصیت اجیت ڈاوول نے بیان جاری کیا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردی کریں گے، اس کے لیے دہشت گردوں کو دگنی رقم دینگے اور کانٹے سے کانٹا نکالیں گے۔ جون 2015ء میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش جاکر برملا اعتراف کیا کہ ہم نے بنگالیوں کے ساتھ ملکر پاکستان توڑا۔ اسی سال نریندر مودی اور اجیت ڈاؤول نے پاکستان کو توڑ کر بلوچستان الگ کرنے کے بیانات بھی جاری کیے اور کہا کہ بلوچستان ہمیں پکار رہا ہے۔ لیکن جواباً نواز شریف مکمل طور پر خاموش رہے۔ دسمبر 2015ء میں نریندر مودی اجیت کمار ڈاوؤل کے ہمراہ اچانک نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرنے ان کے گھر جاتی امراء رائیونڈ پہنچ گئے۔ سرخ قالین بچھا کر ان کو استقبال کیا گیا اور نواز شریف ان کو ریسیو کرنے اور چھوڑنے ائیر پورٹ تک گئے۔ مارچ 2016ء میں پاک فوج نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر انڈین جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری ظاہر کی جو چاہ بہار سے آپریٹ کر رہا تھا۔ نواز شریف نے ایرانی صدر کے ساتھ اس پر بات تک نہیں کی۔ کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ فاٹا سے کراچی تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی پشت پناہی انڈیا کر رہا ہے۔ نواز شریف نے کلبھوشن کا معاملہ عالمی برادری کے سامنے اٹھانا تو درکنار اس کا نام تک لینا پسند نہ کیا۔ نواز شریف کلبھوشن کو آج بھی دہشت گرد قرار دینے کے لیے تیار نہیں وہ اس کے لیے جاسوس کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ یوں جاسوسی کی جدید تاریخ میں آئی ایس آئی کی سب سے بڑی کامیابی کو خاک میں ملا دیا۔ کلبھوشن کے معاملے میں انڈیا مئی 2017ء میں عالمی عدالت پہنچا، پاکستان کے پاس آپشن تھی کہ عالمی عدالت کی ثالثی ماننے سے انکار کردیتا، لیکن نواز شریف نے نہ صرف یہ ثالثی قبول کر لی بلکہ پاکستان کی جانب سے وکیل تک نہیں کیا، پاک فوج کو عین آخری لمحات عجلت میں وکیل بھیجنا پڑا، عالمی عدالت نے کل بھوشن کی سزا پر انڈیا کو پاکستان کے خلاف سٹے دے دیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے فروری 2016ء میں انکشاف کیا کہ نواز شریف کی آمد کے بعد صرف تین سال کے عرصے میں پاکستان سے انڈیا 14 ارب ڈالر کی رقوم منتقل کی گئیں ہیں، کس کھاتےمیں؟ یہ آج تک واضح نہیں ہوسکا! خیال رہے کہ نواز شریف کی آمد سے قبل پاکستان سے انڈیا کو کسی قسم کی رقوم نہیں بھیجی جاتی تھیں۔ اپریل 2016ء میں ایک انڈین دفاعی تجزیہ نگار نے ٹی وی پر آکر برملا اعتراف کیا کہ ہم نے نواز شریف پر سرمایہ کاری کی ہے اور ہم اس کو ضرور بچائنگے، اس وقت نواز شریف پر پانامہ کا گھیرا تنگ ہورہا تھا۔ ستمبر 2016ء میں علامہ طاہرالقادری نےنواز شریف کی شوگر ملوں میں انڈین جاسوسوں کی موجودگی کا انکشاف کیا، جس کے فوراً بعد ان جاسوسوں کی تصاویر اور ویزا فارم سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے۔ اکتوبر 2016ء میں ڈان اخبار میں سیرل المیڈا کے توسط سے مضمون چھپا جس میں پاکستان اور پاک فوج کو خطےمیں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور یہ کہ نواز شریف پاک فوج کو دہشت گردی سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے خبر کے تانے بانے پرویز رشید سے ہوتے ہوئے مریم نواز اور نواز شریف تک جا رہے تھے۔ دونوں نے خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے پرویز رشید کو عہدے سے ہٹا دیا۔ اپریل 2017ء میںTTP ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاک فوج کے حوالے کر دیا جس کے بعد اس کا ایک سنسنی خیز انٹرویو کیا گیا، اس انٹرویو میں اس نے نہ صرف ٹی ٹی پی اور جماعت الحرار کی پشت پر انڈیا کی موجودگی کا پول کھولا بلکہ یہ بھی بتایا کہ بلوچ فراریوں کی طرح ٹی ٹی پی کے بہت سے لوگ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں اگر ان کو واپسی کا راستہ دیا جائے سلیم صافی نے TTP کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک نسبتاً زیادہ تفصیلی انٹرویو نشر کرنے کا اعلان کیا جس میں دہشت گردوں، را اور این ڈی ایس میں موجود تعلق کے حوالے سے مزید انکشافات کیے جانے تھے، لیکن وہ انٹریو شائع ہونے سے قبل ہی اچانک انڈین بزنس ٹائکون اور افغان معاملات کے حوالے سے خصوصی طور پر متحرک سجن جندال بغیر کسی ویزے کے پاکستان پہنچا اور مری میں نواز شریف سے چند گھنٹوں کی ایک خفیہ ملاقات کی۔ ملاقات کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں آسکیں لیکن اس ملاقات کے فوراً بعد نواز شریف کے حکم پر احسان اللہ احسان کا تفصیلی انٹرویو شائع کرنے سے روک دیا گیا۔ یوں دباؤ میں آئے ہوئے انڈیا کو ریلیف مل گیا۔ انڈیا کو پاکستانی ڈیموں پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے نواز شریف نے پہلے زرداری کے ساتھ ملکرکالاباغ ڈیم کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا، اس کے بعد دیا میر بھاشا پر کام مکمل طور پر رکوا دیا۔ پرویز مشرف کا نیلم جہلم ڈیم 2009ء میں مکمل ہونا تھا، اس پر کام سست کروا کر 2018ء تک کھینچ لیا اور چند ماہ پہلے اسی ڈیم پر کھڑے ہو کر انڈیا سے بجلی خریدنے کا اعلان کیا۔ پاک ایران چین گیس پائپ لائن پر بھی انڈیا کو شدید تحفظات تھے، وہ منصوبہ بھی نواز شریف نے ہی معطل کروایا تھا، نواز شریف کا دعوی ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سوائے انڈین الزامات کو تقویت دینے کے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کس حد تک ٹھیک ہو چکے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہےکہ نواز شریف کے دور حکومت میں انڈیا نے ایل او سی پر جتنے حملے کیے ہیں اتنے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں کیے۔ یہ حملے تب خاص طور پر بڑھ جاتے، جب نواز شریف پر دباؤ بڑھتا۔ 3 مئی 2018ء کو نواز شریف نے احتساب عدالت کی سیڑھیوں پرکھڑے ہوکر کہا کہ میرے سینے میں بہت راز ہیں، ان کے افشا ہونے سے پہلے سدھر جائیں۔ نواز شریف نے ڈان نیوز سے اپنا انٹرویو لینےکی فرمائش کی سیرل المیڈا کو خصوصی طور پر بلوا کر جو انٹرویو دیا اس کا مندرجہ ذیل حصہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ "پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہیں، کیا ہمیں دس سال پهلے ان کو سرحد پار جاکر ممبئ میں 150 افراد کو قتل کرنے کی اجازت دینی چاہیے تھی؟ ہم ان کے خلاف مقدمات کیوں ختم نہیں کر پا رہے؟ تین بار وزیراعظم رہنے والے کو اتنا علم نہیں کہ انڈیا شواہد اور ثبوت فراہم کرنے کے لیے تیار ھی نہیں اس لیے مقدمات ختم نہیں ہو رہے۔ حالانکه انڈین صحافیوں نے خود یه بھانڈا پھوڑا که ممبئ حملے انڈین حکومت نےخود کرواۓتھے پاکستان کو بدنام کرنے کیلیۓ. نواز شریف نے جو بیان دیا انڈیا عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے خلاف بلکل یہی موقف پیش کر رہا ہے۔ نواز شریف کے سپورٹرز نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اگلےہی دن نواز شریف نے اپنے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیاکہ ان کا بیان بلکل صحیح شائع کیا گیا ہے۔ جواباً پاک فوج نے وزیراعظم کو قومی سلامتی کا اجلاس طلب کرنے کی تجویز دی جس کو قبول کر لیا گیا۔ اس کانفرنس میں ریاست پاکستان نے متفقہ طور پر نواز شریف کا بیان مسترد کردیا، البتہ مریم اورنگزیب نے اس کانفرنس کا بیانیہ پی ٹی وی پر نشر ہونے نہیں دیا۔


واپس جائیں