مضامین
مٹ گئیں کتنی بیٹیاں تیرے عہد میں، اے امیر شہر، تیرا اک دن حساب ہوگا۔

خدا وند کریم نے ہمیں اچھی یا بُری زندگی عطا نہیں کی، ہمیں زندگی عطا کی ہے اور اختیار دیا ہےکہ اسے اچھا بنا لیں یا بُرا: امتیاز احمد

پاکستان کے سب سے بڑے، پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں مبینہ زیادتی کے بعد سات سالہ معصوم بچی زینب کو قتل کر دیا گیا۔ لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔ سڑکیں بلاک کردیں، مارکیٹیں بھی بند کردییں۔ جگہ جگہ مظاہرے کیے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کر کے تین افراد کی جاں لے لی۔

وے بلھیا آج مر گیا توں، تیری قبر تے نا وجن ڈھول، تیرے شہر قصور دے شمراں نیں، اج اک ہور زینب دتی رول

اس بہیمانہ قتل کے واقعے پر قصور ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان سراپا احتجاج ہے۔ تو کیا حکمران اس مجبور، بے بس اور لاچار قوم کو بتا سکتے ہیں کہ مرحوم زینب کے خاندان سے ہمدردی کے اظہار کے لیئے احتجاج کرنا اتنا بڑا جرم تھا کہ پولیس نے سیدھی گولی چلا کر تین معصوم جانیں لے لیں؟

ایسے حالات میں اگر مظلوم اور غریب عوام کی زبانوں پر یہ الفاظ آ جائیں کہ جلا دو اُن بھیڑیوں کو جو قابض ہیں ہماری قسمت پر اور جلا دو اُن بھیڑیوں کو جوجھکا دیتے ہیں عدل کے ترازو کو۔۔۔۔ ورنہ؟ تو کیا وہ حق بجانب ہیں یا نہیں؟

پولیس کے مطابق سات سالہ زینب 5 جنوری کو گھر سے ٹیوشن پڑھنے جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ زینب کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ چار دن پولیس کیا کرتی رہی؟ اور زینب کے لوحقین کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ان ڈی پی او صاحب کو جنہوں نے زینب مرحوم کے لوحقین سے کہا کہ اس پولیس والے کو دس ہزار روپے دے دو جس نے زینب کی لاش تلاش کی ہے۔

دوسری جانب اس واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پنجاب حکومت ملک محمد احمد خان نے کہا کہ قصورمیں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی معصوم بچی زینب کے قاتل کا سراغ لگا لیا ہے، جبکہ اگلے چند گھنٹوں میں ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

مگرپولیس کے مطابق شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش جاری ہے، مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کا شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔ 5 ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی ہے جبکہ 67 افراد کا میڈیکل چیک اپ کروایا جاچکا ہے۔

پولیس ہی کی جانب سے کمسن زینب کے اغواء، زیادتی اور قتل میں ملوث مبینہ ملزم کا خاکہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ مگر ابھی تک اس وحشی، درندہ صفت مجرم کے پکڑے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی

قصور کی ننھی کلی زینب کے والدین جو کہ عمرہ ادائیگی کے لئے گئے ہوئے تھے، جدہ سے اسلام آباد پہنچے تو انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ہمارے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کیا، پولیس حکمرانوں کی سیکورٹی پر ہے، جبکہ ہم تو عام کیڑے مکوڑے ہیں۔

زینب کے والدین نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے بھی انصاف دلانے کے لیئے اپیل کی۔ کیا اس اپیل پر ہمارے حکمرانوں کو شرم نہیں آئی کہ اب ان کی رعایا کو ان پر اعتماد نہیں رہا۔

کیا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹ لاہور کے نوٹسز لینے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی شدید الفاظ میں مذمت اور بچی کے والدین کو انصاف دلانے کے لئے سول انتظامیہ سے تعاون کرنے کی یقین دہانی ایسے حالات میں کافی ہے؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ عصمتوں کے لٹیرے، قاتل، اغواکار، بردہ فروش، چور اور ڈکیت ہمارے پارلیمینٹیرینزاور حکمرانوں کی چھتری کے نیچے ہی پھلتے پھولتے نظرآ رہے ہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں، ہم جیسا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں۔

موجودہ حالات میں کیا یہ چند اشعار درست نہیں ہیں؟

انقلاب آتا ہے

مفلس کو، ناداروں کو، بے کس کواور بے سہاروں کو

دو ٹکڑے روٹی کی خاطر، مشکل سے جینے والوں کو

یہ خون پسینہ اک کر کے دو پائی کمانے والوں کو

جب دیکھے کوئی ظالم حا کم بھری حقارت نظروں سے

تب دیس کے ہر اک کونے سے بس ایک جواب آتا ہے

انقلاب آتا ہے، انقلاب آتا ہے

جب رہبر رہزن بن جائے، محافظ قاتل ہو جائے

انصاف کے جب ایوانوں میں، منصف بھی جاہل ہو جائے

خود اپنی زمہ داری سے، جب حاکم غافل ہو جائے

اپنے ہی دیس میں لوگوں کو، جب جینا مشکل ہو جائے

انسان کے لب سے ایسے میں، بس ایک جواب آتا ہے

انقلاب آتا ہے، انقلاب آتا ہے

جب ظلم و جبر کی دھرتی پر، کوئی ناحق خون بہتا ہے

بہنوں کی عزت لٹنے پر، کوئی نہ سہارا رہتا ہے

اپنوں کے ظلم اپنوں کے ستم، جب دیر تلک کوئی سہتا ہے

پھر دیس کے زرے زرے سے، بس ایک جواب آتا ہے

انقلاب آتا ہے، انقلاب آتا ہے

جب زوق یقیں کا مٹ جائے، جب شوق لگن کی کھو جائے

اذہان کی سوہنی مٹی پر، جب بیج غلامی بو جائے

جب جدو جہد مسلسل رک جائے، خدمت کا جذبہ سو جائے

غدار وطن غدار چمن، اپنوں میں ہی پیدا ہو جائے

ناچار سوال یہ اٹھتا ہے، ناچار جواب آتا ہے

انقلاب آتا ہے، انقلاب آتا ہے

جب ملک و قوم کو دھوکہ دے، اک ہوس دولت کی خاطر

برسوں کی محنت دھو ڈھالے، دو دن کی حکومت کی خاطر

آئین کو جب پامال کرے، ایوان صدارت کی خاطر

سرمائے ملت کھا جائے، ایوان اقتدار کی خاطر

پھر ایک سوال اٹھتا ہے، پھر ایک جواب آتا ہے

انقلاب آتا ہے، انقلاب آتا ہے

مجبورہو کرکہہ رہا ہوں کہ ڈوب کے مر جاؤ اس نظام کو سہارا دینے والو۔

اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد، برادریوں یا پیسے کی خاطر ووٹ دے کروطن عزیز میں ایسے حالات پیدا کرنے والو، جاگ جائو، ابھی بھی وقت ہے۔

ووٹ لینے والو لوگوں کو بیوقوف بنانا چھوڑ دو اور ووٹ دینے والوشخصیت پرستی چھوڑ دو۔


واپس جائیں