کیا یہ سچ نہیں کہ شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے؟ بت کا تو دماغ ہی نہیں ہوتا جو خراب ہوجائے لیکن جب انسان کی پوجا اور خوشامد کی جاتی ہے تو اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور وہ فرعون بن جاتا ہے۔ ہمارے پیارے وطن عزیز پاکستان میں تو شخصیت پرستی اور خوشامد کی مہلک بیماری ہر شعبہ میں پائی جاتی ہے بلکہ خوشامد تو عوام اور خواص میں نہائیت ہی مقبول ہو چکی ہے۔
قائداعظم کے بعد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو عظیم لیڈر تھے۔ خوشامد انکی بھی کمزوری تھی۔ ایک مرتبہ پارٹی کے ایک کنونشن میں بھٹو صاحب کی خوشامد میں ایک مولانا اور دانشور سیاستدان کے درمیان مقابلہ ہوگیا۔ کنونشن کے بعد بھٹو صاحب نے بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید سے کہا کہ آج اس قدر خوشامد ہوئی کہ میں خود بھی شرمندہ ہورہا تھا۔ ایک اور موقع پر پی پی پی کے ایک سینئر رہنما نے فیصل آباد کی ریلی میں پرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے اپنے جوش خطابت میں کہا کہ بھٹو سورج ہے اور عوام اسکی روشنی ہیں۔ بھٹو چاند ہے اور عوام اسکی کرنیں ہیں۔ بھٹو پھول ہے اور عوام اسکی خوشبو ہیں۔ ایک نظریاتی جیالا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا بھٹو دیگ ہیں اور ہم انکے چمچے ہیں۔ پارٹی لیڈر نے جیالے سے مخاطب ہوکرکہا کہ تم نے میری زبان سے میری بات چھین لی میں بھی یہی کہنے والا تھا۔ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب سچ سنتے اور اختلاف رائے برداشت کرتے تھے مگر خوشامدی اپنے ذاتی مفاد اور منصب کیلئے لیڈر کی خوشامد کرتے ہیں اور اس میں انا، غرور اور تکبر پیدا کردیتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وژنری اور خداداد صلاحیتوں کی حامل لیڈر تھیں وہ بھی پی پی پی کی تاحیات چیئرپرسن بن گئیں جو شخصیت پرستی اور خوشامدانہ خصوصیت کی منہ بولتی مثال ہے۔ پارٹی کارکنوں کے ایک اجلاس میں ایک رہنما نے جوش خطابت میں کہا 'بی بی آپ ولی ہیں، آپ نبی ہیں' (نعوذ باللہ) محترمہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 'میں ولیوں اور نبیوں کی ادنیٰ خادم ہوں'۔ جو انسان اشرف المخلوقات کے مقام اور مرتبے پر کھڑے رہتے ہیں وہ جائز تعریف تو کرتے ہیں مگر خوشامد نہیں کرتے۔ میاں نواز شریف صاحب جب 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے سندھ میں بے گھر لوگوں میں پلاٹ تقسیم کیے۔ واپسی پر اپنے ساتھ بیٹھے سعید مہدی صاحب سے پوچھا 'مہدی صاحب کیا پلاٹ تقسیم کرنے سے پی پی پی کی مقبولیت میں فرق پڑیگا'۔ مہدی صاحب نے کہا 'میاں صاحب کچھ نہ کچھ پڑیگا'۔ پیچھے بیٹھے سلمان فاروقی صاحب نے کہا 'میاں صاحب آپ نے سندھ میں پلاٹ تقسیم کرکے پی پی پی کا سیاسی جنازہ نکال دیا ہے'۔ میاں صاحب نے خوشامدانہ بات سن کر کہا مہدی صاحب آپ پچھلی نشست پر چلے جائیں اور فاروقی صاحب کو میرے ساتھ بیٹھنے دیں۔ مسلم لیگی وفاقی وزیرریاض حسین پیرزادہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مسلم لیگ کے لیڈر اور اراکین پارلیمنٹ شخصیت پرستی چھوڑ کر مسلم لیگ کو بچانے کی کوشش کریں۔ انہوں نے میاں شہباز شریف کو پارٹی ٹیک اور کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے متعلق ابھی کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ابھی انہوں نے اقتدار کا مزہ نہیں چکھا۔ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر زوال پذیر ہے۔ البتہ شخصیت پرستی اور خوشامد عروج پر ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ سینئر جج جس لیڈر کو صادق اور امین نہ ہونے پر نااہل قرار دیتے ہیں پارلیمنٹ کے اراکین اس کے لیے قانون تبدیل کرکے اسے پارٹی صدارت کیلئے اہل قرار دے دیتے ہیں۔ یہ شخصیت پرستی، خوشامد اور غلامانہ ذہنیت کی تازہ مثال ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں کے سیاسی رہنما کئی دہایوں کی عملی سیاست کے بعد بھی شخصیات کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنا لیڈر تسلیم کرکے انکی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کچھ حصے تجارتی مفادات کیلئے شخصیت پرستی کو پروموٹ کررہے ہیں، جبکہ ریاست کے اداروں اور قومی مسائل کے بارے میں ان کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پاکستان میں جائز تعریف سے گریز کیا جاتا ہے البتہ خوشامد میں پاکستان دنیا کے دوسرے تمام ممالک سے بہت آگے ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان میں میڈیا بھی شخصیتوں کی سرگرمیوں کو لائیو کوریج دیتا ہے مگر عوام کے روز مرہ کے بنیادی مسائل اور مصائب کے سلسلے میں کیمرے کی آنکھ بند ہی رکھتا ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی میں بھی خوشامد عروج پر ہے۔ خوشامد کا کلچر جب ایک پسندیدہ فعل ہوجائے تو پھر کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں رہتا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران خاندان کےخلاف کرپشن کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے نتیجہ میں خیبر سے کراچی تک عوام کے دلوں میں اُمید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے کہ حکمران خاندان کیخلاف احتساب کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا اور اسکے بعد احتساب کا دروازہ کھل جائےگا اور دوسرے لیڈروں کا احتساب بھی ممکن ہوسکے گا۔ لیکن حکمران عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں اور شخصیت پرست پروپیگنڈے سے متاثر ہورہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر کب تک ہم شخصیت پرستی اور خوشامد جیسی مہلک بیماری میں مبتلا رہیں گے؟ جمہوری نظام شخصیت کی بجائے اُصولوں کی بنیاد پر پروان چڑھنا چاہیئے تاکہ جمہوریت مستحکم اور مضبوط ہوسکے۔ شخصیتوں کے دباﺅ میں رہنے والی جمہوریت کبھی ملک اور قوم کیلئے بار آور نہیں ہوسکتی۔ اب جمہوریت کا یہ ڈھونگ، ڈرامہ اور تماشہ اپنے انجام کو پہنچ جانا چاہیئے اور حقیقی عوامی اور اُصولی جمہوریت کا آغاز ہونا چاہیے۔ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں قرآن سے دوری کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جن میں شخصیت پرستی اور خوشامد بھی شامل ہے۔ برصغیر کے مسلمان صدیوں بادشاہت اورانگریز کی غلامی کے زیراثر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں غلامانہ اور خوشامدانہ خصوصیات پیدا ہو گئیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں شخصیت پرستی اور خوشامد سے منع فرمایا ہے۔ شخصیت پرستی کو طاغوت کا نام دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بجائے غیر اللہ انسانوں اور بتوں سے توقعات وابستہ کرلینا ہے۔ اگر مسلمان قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا شروع کردیں تو شخصیت پرستی اور خوشامد جیسی بدعتیں ختم ہوجائیں گی۔ یقین کریں قرآن ہدایت، رحمت اور شفا ہے۔